15 مئی 2025 - 17:48
ٹرمپ نے نظرانداز اور مایوس کر دیا ہے مگر اسرائیلی ہنوز خاموش ہیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات اور بات چیت کے دوران ہی ایران، واشنگٹن، امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کا اعلان کیا / ٹرمپ کے کہنے کے مطابق ایران کے ساتھ مفاہمت امریکہ کی "اولین ترجیح" ہے، جس کی وجہ سے اسرائیلیوں کے درمیان غیظ و غضب کی لہر دوڑ گئی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رائٹرز نے لکھا: اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت نے اس ہفتے سفارتی خاموشی برقرار رکھی ہے کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلانات کے برفانی طوفان کو برطرف کر دیا ہے جس نے اپنے سب سے اہم اتحادی کے ساتھ اپنے ملک کے کھڑے ہونے کے بارے میں اسرائیلی مفروضوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے اپنے موجودہ دورے کے دوران اسرائیل کو نظرانداز کرنے کے فیصلے کو پہلے ہی ان کی انتظامیہ کی امیر قطر سمیت خلیجی ممالک کے ساتھ منافع بخش کاروباری سودوں پر توجہ مرکوز کرنے کی علامت کے طور پر دیکھا گیا تھا، جبکہ اسرائیلی حکام طویل عرصے سے قطر پر حماس کی مدد کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔

ادھر پاکستانی اخبار ڈان نیوز نے لکھا کہ اسرائیل امریکی فیصلوں پر غضبناک ہے۔

اس اخبار نے ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا: حماس اور یمن کے ساتھ مذاکرات اور تہران کے ساتھ [بلا واسطہ] امریکی مذاکرات، خطے کے بحران پر قابو پانے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کی بظاہر خودمختار پالیسی کا حصہ ہے، جس سے اسرائیل کو مخمصے میں ڈال کر ناراض کر دیا ہے۔

ان دنوں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا امریکی صدر نے مشرق وسطی میں اسرائیلی روش کی پیروی سے اجتناب کیا ہے یا نہیں؟ اور کیا وہ خطے میں اسرائیل سے الگ خودمختار پالیسی پر کاربند ہیں؟

یہ بہت اہم مسئلہ ہے کیونکہ اسرائیلی ریاست عشروں سے واشنگٹن کی دوجماعتی حمایت سے بہرہ ور رہی ہے اور بہت کم امریکی سیاستدان اسرائیل کے خلاف موقف اپنانے کی جرات کرتے ہیں۔

بہت سارے آثار اور نشانیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیلی ریاست کے مقابلے میں نئی حکمت عملیاں طے کر رہی ہے؛ بطور مثال امریکہ نے اسرائیل کو بائی پاس کرکے فلسطینی مقاومتی جماعت "حماس" کے ساتھ براہ راست مذاکرات کئے ہیں، اور ایک امریکی-اسرائیلی قیدی کو رہا کروایا ہے۔

اور دوسری طرف سے، ٹرمپ خلیج فارس کی ریاستوں کے ساتھ کئی سو ارب ڈالر کے سودے طے کرنے میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ، سعودی عرب کے ساتھ تعاون کی شرط ـ یعنی اسرائیل کو تسلیم کرنے ـ کو بھی نظر انداز کر چکے ہیں۔ اور ریاض نے کہا ہے کہ اسرائیل اگر خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا پابند ہوجائے تو اس ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام پر بات ہو سکتی ہے، حالانکہ صہیونی ریاست ـ جو اس وقت غزہ میں فلسطینیوں کو فاقے کرانے اور ہر روز سینکڑوں فلسطینیوں کے قتل عام میں مصروف ہے ـ کسی صورت میں بھی فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے تیار نہیں ہے [اور صہیونی حکمران اعلانیہ کہتے ہیں کہ وہ فلسطین کا نام تک مٹا کر دم لیں گے]۔

ادھر امریکہ نے یمن کو دہشت گردی کی فہرست میں سما کر بھی یمنیوں کے ساتھ جنگ بندی کے سمجھوتے پر دستخط کئے ہیں، جس سے اسرائیلی ریاست کو شدید دھچکا لگا ہے۔

یمنیوں نے امریکہ کے ساتھ جنگ بندی کے بعد بھی کئی مرتبہ صہیونی ریاست کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ اور صہیونیوں نے بھی یمنی عوام پر وحشیانہ بمباریاں کی ہیں۔ [یمنی کسی صورت میں بھی غزہ کی حمایت ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں]۔

ایران کے ساتھ [بالواسطہ] مذاکرات کا جاری سلسلہ ـ شاید ـ تل آویو کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اگرچہ ٹرمپ نے اس دوران ایران کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیئے ہیں لیکن انھوں نے اعلانیہ کہا ہے کہ "ایران کے ساتھ مفاہمت امریکہ کی اولین ترجیح ہے"، یہ ساری امریکی پالیسیاں بظاہر بہت آزادانہ اور خودمختارانہ ہیں، جس کی وجہ سے اسرائیلیوں کے درمیان غیظ و غضب کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ان تمامتر واقعات کے باوجود، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ امریکہ اور اسرائیلی ریاست کے روابط میں سنجیدہ دراڑ پڑ گئی ہے، اگرچہ اسرائیلی ریاست کے سلسلے میں امریکہ کا بدلتا ہؤا موقف بڑی حد تک واشنگٹن میں اندرونی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے نہ کہ بیرونی تحفظات کا؛ [اور آنے والے دنوں میں امریکی رویوں اور پالیسیوں سے آشکار ہو جائے گا کہ کیا امریکہ اور صہیونیوں کے درمیان اختلافات سنجیدہ اور طویل مدتی ہیں یا غیر سنجیدہ اور عارضی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha